یہ سطور، واشنگٹن ڈی سی کے مضافاتی علاقے، فیئر فیکس میں تحریر کی جا رہی ہیں۔ یہ کائونٹی، امریکا کی تین امیر ترین کائونٹیوں میں شامل ہے۔ اس امارت کی چھوٹ بھی، اس خاکسار پر تو پڑی نہیں۔ ہاں! یہاں بسنے والوں میں، ایک یہ غریب الدیار بھی البتہ ہے۔ ان دنوں، یہاں خزاں کی آمد ہے۔ قدرت کے بھی کام نرالے ہیں۔ خزاں کو بہار کے معاً نہیں رکھا۔ دونوں کے درمیان، گرمی کا ظہور ہوا ہے۔ خزاں اگر بہار کے فوراً بعد آیا کرتی، تو عبرت دہ چند ہوتی! تب یہ حال تھا کہ
ابھرا تھا رنگ ِسودا، دیوانگی ہری تھی
تھا جوش ِموسم ِگُل، جو پھول تھا، پری تھی
اور اب یہ حالت
شمع اور پتنگ سے ہے، ہر صبح وعظ ِفطرت
وہ بھی مرے پڑے ہیں، یہ بھی بُجھی دھری ہے
بہار آئی تھی تو ہر شے مسکراتی گنگناتی تھی۔ خزاں آئی ہے تو سارے ہی مظاہر، زار زار روتے ہیں۔ اس بہار و خزاں میں، دنیوی زندگی کے دونوں کنارے موجود ہیں۔ جہاں شادی مرگ ہونے کا وقت تھا، وہیں “مرگ ِشادی” بھی ہو کر رہی۔ کیوں نہ ہو؟ سوا عبرت کے، یہ دنیا اَور ہے کیا؟ عبرت کی کہانیں ہر طرف موجود۔ ان سے سبق سیکھنے والے مفقود۔ جس تیزی سے دست ِقدرت یہ کہانیاں لکھتا ہے، اسی رفتار سے آدمی انہیں نظر انداز کیے جاتا ہے۔ سارا سفر زیاں کا، ساری مشقت رایگاں!
ہر قدم دوری ِمنزل ہے نمایاں مجھ سے
اصل یہ ہے کہ مرکز سے سب ہٹ چکے اور بنیاد کو بھلا بیٹھے۔ منزل موجود ہے، معلوم بھی ہے۔ مگر مسافر راستے کا اسیر ہے۔ اب یہ جہاں بھی لے جائے۔ ایک کو دیکھ کر دوسرا رنگ پکڑتا اور آ شریک ہوتا ہے۔
نہیں معلوم منزل ہے کدھر، کس سمت جاتے ہیں
مچا ہے قافلے میں شور، ہم بھی غل مچاتے ہیں
سمجھ میں کچھ آئے بھی کیسے؟
اول و آخر ِاین کُہنہ کتاب، افتاد است
اس کتاب کا آغاز اور اختتام، دونوں نامعلوم ہیں) آدمیوں کا جم ِغفیر، لگتا ہے کہ کسی سِحر نے جکڑ رکھا ہے۔ ایک ہجوم ہے جو رواں ہے دواں ہے۔ دل میں طرح طرح کے خیال، وسوسے، اندیشے، اوہام۔ “آج فلاں جگہ وقت پر نہ پہنچا تو قیامت ہی آ جائے گی”۔ “فلاں منصوبے کی ڈیڈ لائن سر پر آ کھڑی ہے، اب کیا ہو گا؟”۔ جو پیدل ہیں، ہاتھ میں فون پکڑے، گرد و پیش سے بے نیاز ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہ فون، آدمی کے ہاتھ میں ہے، یا آدمی فون کے؟ انسان نے ہر شے، بنائی اپنی سہولت اور آسانی کے لیے تھی۔ پر ہوا یہ کہ اشیاء، اس پر سوار ہو گئیں اور اصل مقصد فوت ہو گیا۔ یہاں ہر انسان، اسی فکر میں ہے کہ فلاں شے، حاصل کیسے کرے، اپنے تصرف میں کیوں کر لائے۔ یا فلاں چیز سے، چھُٹکارا کس طرح پائے! امریکن نظام، جس کے ڈنکے پٹے ہوئے ہیں، دراصل، ایک بہت بڑا کولہو ہے۔ اس کولہو میں، بیک وقت، کروڑوں لوگ بیل کے مانند بندھے ہوئے ہیں۔ دَم مارنے کی تاب، کسی میں نہیں۔ یا ایک ایسی چکی، جو چھوٹے بڑے، مرد و زن، ہر ایک کو پیستی جاتی ہے۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ چکی کے پاٹ دو ہوئے۔ ایک وقت کا اور دوسرا اس نظام کا۔ وقت کے آثار دکھائی دیتے ہیں مگر اس نظام کی مار، اتنی گُجھّی ہے کہ احساس سے بھی عاری رکھتی ہے۔ آدمی کو ترقی کا ہَوکا بھی نہیں، سودا تھا۔ مگر یہ ترقی ہوئی کہ تنزل؟ یہ کیا کہ جسم، جس کا خاک میں ملنا مقدر ہے، ساری توجہ اس پر رہے اور روح، جس سے ہستی آباد ہے، یوں فراموش رہے
ترقی مستقل وہ ہے، جو روحانی ہو اے اکبر!
اڑا جو ذرہ ء عنصر، وہ پھر سُوے زمیں آیا
اڑان بھر کر، بہت سے دوسرے سیاروں کو جھانک آئے۔ لیکن ظاہری چیزوں سے آگے، باطن تک بھی رسائی ہوئی؟
کرتے پھرتے ہو یہی تحقیق، کِس نے کیا کہا
اپنے دل کی بھی خبر تو لو، کہ اِس نے کیا کہا
مادّہ، حقیقت ہی سہی، کیا روح سے بھی بڑھ کر ہے؟ یہ وہ سوال ہیں، جنہیں یہ نظام، جھٹلاتا ہے، ٹھکراتا ہے۔ مادّہ پرستی کا انجام یہ ہے کہ یہاں کی سب سے بڑی عدالت نے، کارپوریشنوں کو بھی ذی روح قرار دے کر، اس کے حقوق متعین کرنا چاہے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون! نظام کی باگ ڈور، انسانوں کے ہاتھ میں رہتی، تب بھی کچھ خیر تھی۔ مگر اب خود انسان، نظام کے اسیر ہیں! مشرق(اور خصوصا مسلمان ممالک) کی پستی، ہمارے سامنے ہے۔ ان کے وجوہ، کچھ تو ہمیں معلوم ہیں اور کچھ مغرب زدوں کی “مہربانی” سے پتہ چلتے جاتے ہیں۔ لیکن یہ کیوں سمجھا جائے کہ مغرب کا راستہ فلاح اور بہبود کا ہے؟ مغرب کی پستی، دیکھنے سے زیادہ، شاید محسوس کرنے کی چیز ہے۔ اور اسی لیے یہ فریب، نظر آ کر بھی نظر نہیں آتا! گڑھے میں، کیا مغرب کی راہ اور کیا مشرق کی، دونوں ہی گرانے والی ہیں۔ ایک پیچھے رکھ کر، اور دوسرے آگے بڑھا کر! ایک پر، منزل کے تعین کے بغیر، بگ ٹٹ دوڑ ہو رہی ہے۔ دوسری پر، نقالوں کی اچھل کود ہے اور سراسر بے سود!
خزاں نے، لگتا ہے کہ امریکن صدر کا بھی گھر دیکھ لیا ہے۔ ان کے خلاف مواخذے کی تحریک، حتمی مراحل میں داخل ہو گئی ہے۔ ایوان زیریں، جو حزب اختلاف کے اختیار میں ہے، یہ تحریک منظور کر ہی لے گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھریری لے کر، یہ مردہ اپوزیشن اٹھ کیوں کھڑی ہوئی؟ اس کا جواب، ایک تو وہ ہے جو بیان کیا جا رہا ہے۔ مگر اصل کی ہوا، مجال ہے جو عوام کو بھی لگے؟ ہوا یہ تھا کہ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر سے گفتگو کے دوران، سابق نائب صدر جو بائیڈن کے بیٹے کا کیس، کھنگالنے پر زور دیا۔ اس پر ساری ڈیموکریٹ پارٹی، آتش زیر ِپا ہو گئی اور اسے غیر آئینی اقدام قرار دے دیا۔ اس سے پہلے، اوباما اور فرانسیسی وزیر ِاعظم کے درمیان کانا پھوسیوں کو، یہی میڈیا نظر انداز کر چکا ہے۔ دسیوں مثالیں اس کی اَور بھی موجود ہیں، مگر اب ساری بے فائدہ۔ ٹرمپ کے دانت توڑنے کا، پورا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ ان کا کھّرا اور ٹّرا پن، اسٹیبلشمینٹ کو پچھلے تین سال سے، زچ کیے ہوئے ہے۔ شمالی کوریا سے پینگ بڑھانا، وینزویلا اور ایران کا “تیل نکالنے” کے بجاے، صرف دھمکا کر رہ جانا، شام سے فوجیوں کا اخراج، افغانستان سے واپسی کی بھرپور کوششیں، یہ سب کچھ پچھلی کئی دہائیوں کی منصوبہ بندی پر پانی پھیرنے کے برابر ہے! کہاں ایک کے بعد دوسرے (مسلمان) ملک میں بے امنی، اور کہاں ان سارے جھگڑوں سے بے تعلق ہونے کی سعی۔ حد یہ ہے کہ خود ریپبلکنوں کے بھی پیٹ میں کُردوں کی حمایت کے مروڑ اٹھنے لگے ہیں۔ جتنے صدور پہلے آئے، اسٹیبلشمینٹ کی مٹھی میں رہے۔ اب ایک یہ ٹرمپ ہوئے ہیں، جو کب کیا کہہ دیں، کیا کر دیں، کوئی نہیں جانتا۔ بے یقینی کی اس کیفیت سے نکلنے کے، دو حل ہیں۔ پہلا ٹرمپ سے خلاصی اور دوسرا انہیں بے دست و پا کر دینا۔ بظاہر، کام ان دونوں پر کیا جا رہا ہے۔ ان کا مواخذہ، ایوان ِبالا سے فی الحال منظور ہونا مشکل ہے۔ مگر تا بہ کے؟ کہنا مشکل ہے۔ جو نظام خدا کو عرش تک محدود کرنے کا قائل ہو، اس سے اَور توقع بھی کیا؟ اسے بلند سمجھنے والے، پستی کے مسافر ہیں! سچ کہا ہے شیخ ِشیراز نے
ہزار خویش کہ بیگانہ از خدا باشد
فدای ِیک تن ِبیگانہ کآشنا باشد
ایسے ہزار اقرباء، جو خدا سے بیگانہ ہیں، فدا کیے جا سکتے ہیں اس ایک بیگانے پر، جو خدا آشنا ہے