8.2 C
Washington D.C.

آدمی کو صرف چمچہ گیر ہونا چاہیئے

Published:

- Advertisement -

زاہد فخری صاحب کا ایک شاندار شعر ہے :۔

”میں کہتا ہوں تیری آنکھیں قلوپطرہ سے ملتی ہیں
وہ کہتی ہے میری آنکھیں تو آپس میں نہیں ملتی ”

اگرچہ اس شعر میں شاعر محبوب کی خوشامد کر رہا تھا اور اچانک رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تاہم یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان تعریف کا رسیا ہے، خود نمائی کا بھوکا ہے اور ستائش کا مارا ہوا ہے۔

ہماری یہ خوش فہمی ہے کہ صرف عورت کو تعریف کی خواہش ہوتی ہے۔ ( اگرچہ یہ کچھ غلط بھی نہیں ) مگر ہر انسان کو چاہے مرد ہو یا عورت اپنا آپ منوانا اچھا لگتا ہے۔

تعریف سچی ہو یا جھوٹی، ہماری سماعتوں کو مسحور کرتی ہے۔ اسی لئے ہمیں اردگرد ایسے لوگ اچھے لگتے ہیں جو ہمیں عموماً مکھن لگاتے رہیں۔ ( اور بعد میں بے شک چونا لگا جائیں ) ۔

تعریف کرنا ایک فن ہے اور اس لحاظ سے تعریف کرنے والے فنکار ہوتے ہیں۔ اس فن کا کمال یہ ہے کہ تعریف تعریف ہی ہو، خوشامد نہ لگے۔ تعریف سننے والے کے سامنے ایسے شاندار قصیدے پڑھے جائیں اور زمین و آسمان کے یوں قلابے ملا دیے جائیں کہ اگلا بندہ اس خوشامد نما چاپلوسی کو سمجھتے بوجھتے ہوئے بھی سوائے مسکرانے کے اور کچھ کر نہ سکے۔

تعریف میں بہت طاقت ہے۔ آپ کسی اوسط درجے کے کھلاڑی کو ہر روز یہ باور کروانا شروع کر دیں کہ وہ بہت اعلٰی کھلاڑی ہے۔ اس میں بہت ٹیلنٹ ہے اور تھوڑی سی مزید محنت سے وہ بڑے بڑے برج الٹا سکتا ہے تو یقین جانیئے اگلے ایک مہینے میں اس کی کارکردگی دوگنا ہو جائے گی۔

تعریف کا متضاد تنقید کو کہتے ہیں۔ ہمارا محبوب مشغلہ ویسے تو لوگوں میں عیب تلاش کرنا اور ان کی برائیاں کرنا ہے مگر میں سوچتا ہوں کہ ہماری زندگیوں میں اتنی زیادہ تنقید کیوں ہے۔ ہم کیوں ایک دوسرے کی تعریف نہیں کرتے۔ ہمارے دل اور مزاج کیوں کسی کی خوبی کا اعتراف کرنے میں ججھک اور کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔ ہمیں دوسروں کی خوبیوں سے زیادہ خامیاں کیوں نظر آتی ہیں۔

مشتاق احمد یوسفی صاحب فرماتے ہیں کہ ساس، سسر، موسم اورحکومت کے خلاف لکھنے کے لئے زیادہ سوچنا نہیں پڑتا۔ جبکہ مستنصر حسین تارڑ صاحب فرماتے ہیں کہ ہر شخص اتنا عقلمند نہیں ہوتا جتنا اس کی ماں اس کو سمجھتی ہے اوراتنا بے وقوف بھی نہیں ہوتا جتنا اس کی بیوی اس کو سمجھتی ہے۔ اور آخر میں ڈاکٹر محمد یونس بٹ صاحب کا قول کہ ڈاکٹروں کو تندرست آدمی اور صحافیوں نارمل حالات اچھے نہیں لگتے۔ اس دعا کے ساتھ اختتام کہ اللہ ہم سب کو ایک دوسری کی خوبیاں دیکھنے کا عادی بنائے۔ آمین۔

تحریر: خرم سلیم
- Advertisement -

Related articles

Recent articles