23.5 C
Washington D.C.

١٩٦٥ کی جنگ اور پاک فوج کی داستانِ شجاعت | تحریر، لبنیٰ مقبول

Published:

- Advertisement -
لبنیٰ مقبول

 ٦ ستمبر، ١٩٦٥ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم اور یادگار دن، وہ دن جب پاک وطن کی نڈر، بہادر اور جذبہ ایمانی سے سرشار پاک فوج کے جوان بزدل دشمن سے بے دریغ ٹکرا گئے. وہ بزدل دشمن جو لاہور جم خانہ میں صبح کا ناشتہ کرنے کے خواب لے کر آیا تھا، جو پاکستان کو ہلکا ہدف سمجھتے ہوئے کچھ گھنٹوں کے اندر جیت حاصل کرنے کا خواب لے کر آیا تھا، لیکن وہ سب خواب چکنا چور ہو کر خاک میں مل گئے کہ دشمن کو شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ جنگیں اسلحے اور طاقت سے نہیں بلکہ جذبہ ایمانی سے سرشار ہو کر جیتی جاتی ہیں۔ تاریخ بھی اسی وقت ہی رقم ہوتی ہے کہ جب شہادت کے نشے سے سرشار فوج اپنے سے کئی گنا طاقتور فوج سے ٹکرا جاتی ہے. سینے چھلنی ہو جاتے ہیں، لہو سے مٹی گلزار ہو جاتی ہے، بدن بم کے گولوں کے پھٹنے سے چیتھڑوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں لیکن یہ سب دیکھ کر بھی مجاہدین کے جذبہ ایمانی اور جذبہ شہادت میں کمی نہیں آتی بلکہ وہ ان شہیدوں کی قسمت پر رشک کرتے ہوئے اور مزید متحد ہوتے ہوئے اپنی شہادت کی تمنا کرتے ہیں۔

پاکستان کی بحری، بری، فضائیہ افواج، غرضیکہ اس زبردستی اور اچانک مسلط کر دینے والی جنگ میں ہر طرف سے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جا رہا تھا. جرات و شجاعت کی ایک لازوال داستان تھی کہ رقم کی جا رہی تھی اور اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کے قدم اکھڑتے جا رہے تھے. لاہور جم خانہ تو دور کی بات انڈین فوج، پاک سرحد کے ایک انچ پر اپنے ناپاک قدم تک نہ رکھ سکی کیونکہ سامنے پاک فوج کے سر پر کفن لپیٹے مجاہدین تھے اور مجاہد تو بس شہادت حاصل کرنا چاہتا ہے. جذبہ شہادت سے لبریز پاک فوج کا ایک ایک جوان اپنی سرزمین کو بچانے کے لیے جان دینے کو تیار تھا۔

6 ستمبر کو شروع ہونے والی جنگ 23 ستمبر تک جاری رہی اور اس جنگ میں پاک فضائیہ، بری فوج، بحریہ اور پاکستانی قوم نے دنیا بھر میں خود کو اپنی طاقت، جرات، جذبے اور جنگی صلاحیت کے ذریعے منوایا. ایک طرف سرحد کا یہ منظر تھا جہاں دشمن کے طیارے مسلسل گولہ باری کر رہے تھے تو دوسری طرف ایک عجب ہی سماں تھا کہ جس میں پاکستانی عوام، پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی تھی. ایسے مشکل وقت میں پاکستانی عوام درحقیقت ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر دنیا بھر کے سامنے آئی اور اُس وقت واقعی ایسے مناظر دیکھنے کو ملے کہ جس میں قوم کا بچہ بچہ محاذِ جنگ پر جانے کے لیے بے تاب تھا تاکہ دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا سکے. ایسے وقت میں پاکستان ریڈیو سے نشر ہونے والے ملّیِ نغمے پاک فوج کے جوانوں کا لہو گرما رہے تھے اور وطن پر مر مٹنے کے جذبات بیدار کر رہے تھے. میڈم نورجہاں، استاد مہدی حسن اور عنایت حسین بھٹی کے ملی نغموں کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا. دل کو چھو لینے والی شاعری، آواز کی گرماہٹ اور جنگی سازو دھن کے ساتھ بچہ بچہ ان لوگوں کی آواز میں آواز ملا کر اور پر عزم ہو کر پاک فوج کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہا تھا. تینوں پاکستانی افواج نے اپنی بھرپور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا شاندار مظاہرہ کیا. بری فوج نے بھی وطن سے محبت کی ایک انمٹ داستان رقم کی. نشان حیدر حاصل کرنے والے میجر عزیز بھٹی، چھ دن اور چھ رات مسلسل محاذِ جنگ پر فرنٹ لائن پر دشمن کو مزا چکھاتے رہے اور پھر سینے پر گولہ کھا کر جامِ شہادت نوش فرمایا۔

اسی طرح جرات و ہمت کی بے شمار داستانیں ہیں جو اس جنگ میں رقم ہوئیں. بری فوج کا کیا آفیسر اور کیا سپاہی، سب نے وطن کی زمین کے ایک ایک انچ کی حفاظت کی. پاکستان نیوی کے وائس ایڈمرل احمد تسنیم، ( ہلالِ امتیاز ملٹری, ستارہ بسالت بار اور ستارہ جرات) کی قیادت میں “آپریشن دوارکہ” کامیابی سے ہمکنار ہوا. دوارکہ پر قائم بحری اڈے سے دشمن اپنے ریڈار سسٹم کے ذریعے کسی بھی وقت کراچی اور دیگر شہروں پر بڑا حملہ کر سکتا تھا اس لیے ریڈار سسٹم اور بحری اڈے کو تباہ کرنا ناگزیر ہو گیا تھا. پاکستان نیوی نےدشمن کی حددو میں داخل ہو کر اُسکی بحریہ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا. پاکستان نیوی کے جہاز شاہجہان، بدر، بابر، خیبر، عالمگیر اور سلطان ٹیپو اس مشن پر روانہ ہوئے. پاک نیوی کی آبدوز غازی سے وائس ایڈمرل احمد تسنیم اس سارے مشن کی بذات خود نگرانی کر رہے تھے. ان کے زیرِ قیادت ہماری بہادر نیوی نے اپنی حدود سے قریباً 200 میل دور دشمن کی حدود میں جا کر محض چند منٹوں میں ان کی بحریہ کو ناکارہ بناتے ہوئے مشن سے بحفاظت سرخرو ہو کر واپس لوٹ آئے۔

چھ اور سات ستمبر کے درمیان آپریشن دوارکہ کی کامیابی نے دشمن کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی- ہماری پاک فضائیہ بھی اس سب میں پیچھے نہ رہی اور شجاعت و بہادری کی ایک نئی تاریخ رقم کی. پاک ﻓﻀﺎﺋﯿﮧ ﮐﯽ اس بے مثل ﮐﺎﺭﮐﺮﺩﮔﯽ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﺮ ﮐﻮ ورطہ حیرت میں مبتلا کر ڈالا کیونکہ اس جنگ میں بھارتی فضائیہ کے 117طیارے زمیں بوس کیے گئے. پٹھان کوٹ، جام پور، ہلواڑہ اور دیگر ہوائی اڈے مستقل پاکستانی طیاروں کے نشانے پر رہے اور بھارت ان ہوائی اڈوں پر بری طرح شکست خوردہ ہو کر منہ کی کھاتا رہا. پاکستانی قوم کے جانباز ہیرو ایم ایم عالم نے اپنے طیارے سے کچھ ہی سیکنڈز میں بیک وقت چھ طیاروں کو نشانہ بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کیا جوآج تک ناقابلِ شکست ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ قیامِ پاکستان کو کچھ ہی برس گزرے تھے اور 1965 کی اچانک مسلط کر دینے والی جنگ میں بھارتی فوج، پاک فوج کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور تھا. دشمن کی بحری، بری، اور فضاٸیہ افواج بہت مضبوط تھی. غرضیکہ دشمن ہر لحاظ سے ہم سے بہت آگے تھا اور قابلِ ذکر بات یہ تھی کہ اُس وقت ساری دنیا بھی اُسکا ہی ساتھ دے رہی تھی. دشمن کا میڈیا اپنی جیت کے زعم میں بڑے بڑے دعوے کر رہا تھا۔ بظاہر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ خدانخواستہ پاکسستان یہ جنگ ہار جاۓ گا کیونکہ پاکستان نے کبھی بھی دنیا میں سفارتی سطح پر جارہیت کی بات نہیں کی تھی۔

پاکستان کا ابتداء سے ہی ایک ہی موقف رہا کہ ہم ایک امن پسند قوم ہیں ہم کبھی بھی کسی کے خلاف جارہیت کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں مگر افسوس انڈیا نےاسکو ہماری کمزوری سمجھا اور اس زعم میں وہ ہم پر حملہ کر دینے کی فاش غلطی کر بیٹھا اور اسی غلطی کے سبب 1965 کی اس زبردستی کی مسلط کردہ جنگ میں اسکو دنیا بھر میں ہزیمت اٹھانی پڑی۔ کبھی کبھی چیونٹی بھی ہاتھی کی موت کا سبب بن جاتی ہے۔ دشمن اپنی طاقت کے نشے سے چور تھا کہ اُسکے پاس ہزاروں ٹینکس اور بڑی تعداد میں جنگی جہاز اور آبدوزیں ہیں. وہ بہترین جنگی ہتھیاروں سے لیس تھا مگر شاید اس وقت وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ ایک مسلمان تو اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن سے جنگ صرف اور صرف جذبہ ایمانی سے سرشار ہو کر لڑتا ہے، شہادت کی خواہش لیے جب ایک فوجی مجاہد بن جاتا ہے تو پھر اُسکے نزدیک موت و زندگی معنی نہیں رکھتی ہے۔

١٩٦٥ کی جنگ نے پاکستان کی تاریخ بدل دی، ایک طرح سے پاکستان کو اپنی خامیوں کو عملی طور پر دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ جنگ کسی بھی ملک کے لیے کبھی بھی اچھی نہیں ہوتی ہے، چاہے کوئی بھی ہارے یا جیتے۔ نقصان دونوں فریقین ہی اٹھاتے ہیں۔ جہاں دشمن کو بہت سا نقصان ہوا وہیں پاکستان کے اربابِ اختیار کو مستقبل کے بارے میں سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے کا بھی موقع ملا. پاکستان یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ پاکستان کے وجود اور پاکستان کی سالمیت کے لیے ایک مضبوط فوج اور ایک مستحکم معیشت کی ضرورت ہو گی۔ اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد نہ صرف فوج اور حکومتِ وقت بلکہ عوام میں بھی ایک شعور بیدار ہوا اور پھر پاکستان نے ایٹم بم بنانے کی منصوبہ بندی شروع کی۔ یہ بہت مشکل کام تھا مگر اس سلسلے میں عوام نے بھی دل کھول کر حکومت کو سپورٹ کیا. ایٹمی پروگرام پر کامیابی سے کام کرنا اور مستقل اقتصادی پابندیوں کو جھیلتے ہوئے اس پروگرام کو جاری رکھنا اور پھر اس میں کامیابی حاصل کرنا بذات خود ایک بڑی کامیابی تھی، اس کامیابی سے ساری دنیا کو یہ پیغام ملا کہ پاکستانی اگر متحد ہو جائیں تو دشمن اس قوم کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔

عوام کا اعتماد اور حوصلہ فوج کی ہمت بندھاتا ہے، یہ کامیابیاں ایمانی جذبے اور عوامی اعتماد کا ہی نتیجہ ہیں. پاکستان ہماری پہچان ہے. پاکستان ہے تو ہم ہیں اور اسی طرح پاک فوج ہمارا فخر ہے جو دن رات ایک کر کے سرحدوں پر ہماری حفاظت کے لیے مورچہ زن رہتی ہے تاکہ ہم چین و آرام سے رہ سکیں۔

آئیے! پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنے پاک وطن کے دفاع کو مضبوط بنائیں تاکہ کوئی بھی دشمن پاکستان کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی پھر کبھی جرات نہ کر سکے۔

پاکستان زندہ باد!!! پاک فوج پائندہ باد

- Advertisement -

Related articles

Recent articles