مورخہ 10 جولای 2020 جمعہ کا دن ترکی کی اسلامی تاریخ کا ایک یادگار دن بن گیا ہے، جب ترکی عدالت کے فیصلے پر صدر رجب طیب اردوان نے دستخط کرکے ترک قوم سے اپنا دیرینہ وعدہ پورا کر دیا.
مسجد آیا صوفیہ دراصل1400 سال پرانی عمارت ہے جو رومی سلطنت کے قدیم دارالسلطنت قسطنطنیہ کی مرکزی تاریخی جگہ ہے، اسکی تعمیر 537ء میں دنیا کے ماہرین تعمیرات نے پانچ سال کی محنت سے مکمل کی، رومی سلطنت کےکثیر سرماے سے تیار ہونےوالے اس کلیسا کی یہ دلکش عمارت جب تیار ہوئی تو اسوقت کے عیسائی حکمران نے فخریہ طور پر اسے ھیکل سلیمانی سے بڑا کارنامہ قرار دیتے ہوے کہاتھا”میں آج سلیمان پر سبقت لےجانے میں کامیاب ہوگیا ہوں
اس تاریخی عمارت نے مذھبی اور سیاسی کئ ادوار دیکھے اور ہر دور کی قوت نے اس کا استعمال مختلف کیا، یہ عمارت صلیبیوں نےایک عرصہ تک رومن کیتھولک کیتھیڈرل میں منتقل کیے رکھی پھر 1261ء میں آرتھوڈکس چرچ کے طور پر استعمال ہوتی رہی بعد ازاں جب بشارت نبویﷺکے مصداق ترک حکمران سلطان محمد فاتح کی زیرقیادت 1453ءمیں استنبول( قسطنطنیہ) فتح ہوا تو سلطان نے ظہرکی پہلی نماز شکرانے کے نوافل کے ساتھ اسی عمارت کے ہال میں ادا کی اور دیگر اعلانات کے ساتھ اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا اعلان بھی کیا یہاں یہ بات بتانا خصوصی طور ضروری ہے کہ یہ سارا عمل انہوں نے باقاعدہ ایک تحریری معایدے کے بعد کیا، سلطان موصوف علیہ الرحمة جو بشارت نبوی ﷺ کے مطابق “نعم الامیر” یعنی خوش قسمت امیر لشکر تھے. وہ خود بھی علم دین سے گہری واقفیت رکھتے تھے انہوں نے اس موقع پر بہت عقلمندی دور اندیشی اور اسلامی اقدار کی پاسداری کرتے ہوۓ اس مفتوحہ عمارت اور اسکے ارد گرد رقبے کو مارکیٹ ریٹ پر اسوقت کے راھبوں سے خریدا اور اس رقم کو انکی فلاح وبہبود کے لیے وقف کر دیا، یوں یہ عمارت سلطان نے اپنی گرہ سے خرید کراسے مسلمانوں کی عبادت کے لیے وقف کر دیا، دستخط شدہ یہ معائدہ اج بھی انقرہ میں موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ موجودہ عدالتی فیصلے میں اسے سلطان مرحوم کی ذاتی ملکیت کی تصدیق کے بعد اسے انکی وصیت کے عین مطابق مسجد بحالی کے احکامات دیے گۓ ہیں، یاد رہے کہ فتح استنبول کے موقع پراس کلیسا میں پناہ گزین ہزاروں خوفزدہ عیسائ مردوں عورتوں، راھبون اور راھباوں کو باوقار مذھبی آزادی سے نوازاتے ہوے سلطان محمد فاتح نے پر امن بقاے باھمی کی نئ تاریخ رقم کی تھی، پھر جب 1923ء میں سقوط استنبول کے ساتھ عظیم الشان عثمانی خلافت کاسورج غروب ہوا تو سیکولر ترک حکمران مصطفی کمال نے اپنے مغربی آقاوں کے اشارے پر 500 سال تک مسجد رہنے والی اس پرشکوہ تاریخی عمارت کو 1934ءمیں قومی میوزیم کادرجہ دے دیاجو کہ سلطان مرحوم کی وصیت اور قانون وقف کی خلاف ورزی تھی، تب سے اسلام پسند ترک مختلف سطحوں پر اس کی دینی حیثیت بحال کروانے کیلیے کوشاں تھے.
اس عمارت کے ساتھ ہی دو اور تاریخی عمارات ہیں، ایک مسجد سلطان محمد فاتح اور دوسری ٹاپ کیپی پیلس جہاں پر عالم اسلام کے سب سے قیمتی اور تاریخی تبرکات اور نوادرات موجود ہیں. اس خوبصورت اور تاریخی مقام کی اہمیت آپ اس سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ گزشتہ سال یعنی2019 میں یہاں آنے والے زایرین کی تعداد 38 لاکھ ریکارڈ کی گئی، ان زایرین میں بلاتمیز مذھب و ملت عرب وعجم سے کثرت کے ساتھ سیاح آتے ہیں، مجھ کو کئ بار استنبول کے دیدہ زیب مناظر کو دیکھنے کا موقع ملا، ان مقدس تبرکات کی زیارت کی سعادت بھی حاصل ہوتی رہی، حالانکہ ترک حکومت نے مساجد کے علاوہ ان مقامات کو دیکھنے کیلیے بھاری رقم کے ٹکٹ رکھے ہوے ہیں، حالیہ فیصلے کے پیش نظر حکومت کو شاید اس بھاری قومی آمدنی کے مستقل زریعے کو بھی چھؤڑنا پڑے گا.
یاد رہے کہ حالیہ عدالتی فیصلے پر اثرانداز ہونے کے لیۓ امریکہ روس اور بیشتر مغربی حکومتوں نے حتی المقدور دباو ڈالا، یونیسکو کے ادارے نے بھی قانونی چارہ جوی کی، پھر یہی نہیں ترکی کے موجودہ اپوزیشن اتحاد نے بھی طیب اردوان کو سنگین نتایج کی دھمکیاں دے رکھی تھیں، وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے
اس دور میں جینا لازم ہے جس دور میں جینا مشکل ہو
یہ تو ترکی قوم اور حکومت کی اخلاقی اور دینی تاریخ اور مودہ حالت کا منظر تھا، اس فیصلے سے دنیا بھر میں اسلام کے خلاف ایک پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا ھے، سیکولر دانشوروں کے پیٹ میں بلاوجہ انسانی ھمدردی اور عالمی ورثے سے محبت کے دورے پڑنا شروع ہو گۓ ہیں، حتی کہ ھمارے ملک کے بعض حلقے اس فیصلے پر سیخ پا ہورہے ہیں. ان تمام لوگوں سے میری یہ درخواست ہے کہ بھارت کی صدیوں پرانی بابری مسجد کے خلاف آنے والے فیصلے کے وقت یہ مڑوڑ کیوں نہیں اٹھےتھے، علاوہ ازیں اندلس اشبیلیہ اور دیگر مغربی شہروں میں کئی تاریخی مساجد ہیں جو اب تک نجی استعمال میں لای جارہی ہیں.
آخری گذارش اسلام آباد میں مندر تعمیر کرنے کے حامی حلقوں سے ہے. جن لوگوں کو بلاوجہ عالمی پریشر کا خوف کھاے جارہا ہے، وہ ترکی کی موجودہ قیادت سے سبق حاصل کریں.
دعاؤں کی طلبگار – ڈاکٹر مریم نور سیدہ
(ڈیلاس ٹکساس یونیورسٹی امریکہ)