2.7 C
Washington D.C.

وومن ڈے اور کھوکھلی روایات

Related articles

spot_img

Recent articles

spot_img

Published:

بات پھر وہیں پر ختم ہوتی ہے کہ ہم بحثیتِ قوم انتہاٸی جذباتی واقع ہوۓ ہیں، معاشرہ افراد کا مجموعہ ہے ضروری نہیں ہے ہرفرد کی سوچ ایک جیسی ہو، خیال یہ رکھا جانا چاہیے کہ آپ کے الفاظ یا آپ کا کوٸی عمل دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنے، گوروں نے ہمیں کلینڈر کے ساتھ ساتھ منانے کو کچھ دِن بھی دیے ہیں، اچھی بات یا عمل کہیں سے بھی ملے اُسے اپنا لینے میں کوٸی قباحت نہیں ہے، رسمِ دُنیا ہے تو رسم کی طرح نبھا دیجیے، عورت ہیں تو عورت ہونے پر مسکرا دیجیے کہ خدا نے اپنے بعد آپکو تخلیق کار بنایا ہے، مرد ہیں تو اپنے سے جُڑی ہر عورت کو تحفے میں محبت کے چند بولوں کا گلدستہ دے دیجیے۔

دیکھیے کوٸی دِن منایا ایسے ہی جاتا ہے”خوشیاں بانٹ کر، قہقہے کِھلا کر” یہ جو روایات ڈالی جا رہی ہیں یہ کھوکھلی ہیں، ہم ایک دِن میں ساری تقریریں کریں گے، قسمیں کھاٸیں گے، مارچ بھی کرلیں گے، ہوگا کیا؟؟

جن بچیوں کے منہ پر تیزاب پھینکا جاتا ہے یا جو عورتیں باپ بھاٸیوں کی جھوٹی پگڑیوں پر نثار کر دی جاتی ہیں وہ ہوتی رہیں گی۔ کم سن بچیوں کے ساتھ زیادتی متواتر چلے گی، جس نے ماں، بہن کی گالی دینی ہے وہ دیتا رہے گا، پہلے سمجھیے تو سہی، مسٸلہ کہاں پر ہے، تربیت میں عدم توجہی کا مسٸلہ ہے، جو بیٹا ماں یا بہن کو گالی دیتا ہے ناں اُس نے اپنے باپ کو گالی دیتے ہوۓ سُنا ہے۔ جس نے راہ چلتی عورت پر آواز کسی ہوگی ناں اُسکی ماں نے اُسے بہن کا ادب نہیں سکھایا ہوگا، کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک باکردار مرد گھر کی عورت کو عورت سمجھے اور باہر کی عورت کو گوشت کا ڈھیر۔

دراصل اصل مسٸلے کی فاٸل توہم کھول نہیں رہے۔ دیکھیے مسٸلہ عورت کے عورت ہونے میں یا مرد کے مرد ہونے میں نہیں ہے۔ پہلا پواٸنٹ سمجھ لیجیے عورت اور مرد کے درمیان جنسی رغبت فطرت نے رکھی ہے، اِس سے انکار ممکن نہیں، لیکن ساتھ ہی دونوں کو شعور بھی دے دیا کہ بھوک اور ضرورت میں فرق نہیں کرو گے تو نقصان اُٹھاو گے۔ غلطی شعور سے دوری میں ہے۔ ہمارے معاشرے میں تربیت کیسے ہوتی ہے ہم بچوں کو کہتے ہیں گندے کام نہیں کرنے، یہ گندی باتیں ہیں دوبارہ ایسا مت سوچنا یا مت بولنا، اچھا انسانی فطرت کا مزاج کیسا ہے وہ ہراُس بات کو تلاشے گی جو راز کی طرح اُسکے سامنے رکھی جاۓ گی، یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ہم بچوں کے معصوم ذہنوں میں گندا لفظ ڈالتے ہی کیوں ہیں؟ بچہ ہو یا بچی ماں باپ کا فرض ہے کہ اس چیز کو عام چیزوں کی طرح بچوں کے سامنے رکھا جاۓ۔

انسان کی فطرت کو انسان سے دور کیا ہی نہیں جا سکتا، اُسے کہیں کہ بچے یہ نارمل چیز ہے یہ اللہ کا قانون ہے اوریہ اللہ کی حد ہے، تو نہ ہم قانون توڑ سکتے ہیں اور نہ حد۔ اچھا دوسری بات معاشرے کو تقسیم مت کیجیے۔۔۔۔اللہ قرآن میں کہتا اے انسان ،اے میرے بندے وہ بہت کم جگہوں پر عورت اور مرد کو الگ الگ مخاطب کرتا ہے جہاں وہ بتا رہا ہے کہ تمہارا کس رشتے میں کس پر کیا حق ہے یا کیا فرض ہے۔۔۔وہ انسان سے مخاطب ہے جس میں انسان کی ہر جنس آتی ہے۔۔۔یہ برابری کی سطح ہے جسے وہ ایک معاشرہ قاٸم کرنے کے لیے بنا رہا ہے۔۔۔یا بتا رہا ہے۔۔۔یہ جو معاشرے میں ہم مرد کو عورت پر فضیلت دے رہیں ہیں یہ اُس پر الزام ہے۔۔۔وہ جب رشتے بیان کرتا ہے تو ذمہ داریاں تقسیم کرتا ہے۔۔۔اب بیٹا ماں پر فوقیت نہیں رکھ سکتا۔۔۔۔میاں بیوی کے رشتے میں کفالت کا بوجھ مرد کے کندھوں پر رکھا ہے اگر عورت اِس بوجھ کو بانٹ لے تو کوٸی مزاحیقہ نہیں ہے۔۔۔اُس نے جس بات سے روکا ہے بول کر روکا ہے اندازوں پر بات نہیں چھوڑی۔۔۔۔۔وہ بروزِ حشر مرد سے پوچھے گا کہ تم نے کفالت کیوں نہیں کی جبکہ تمہاری ذمہ داری تھی؟ وہ عورت سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تُم نے کیوں کی؟؟ آخری بات۔۔۔اگر آپ واقعی ہی چاہتے ہیں کہ معاشرہ سُدھرے تو سُدھار اپنی ذات سے شروع کریں۔۔۔۔دینا شروع کردیں ملنا شروع ہو جاۓ گا۔۔۔اگر میں چاہتی ہوں کہ سامنے والا میری عزت کرے تو مجھے اُتنی عزت دینی پڑے گی جتنی مجھے چاہیے۔

Umm E Ammara
Umm E Ammara
Writer and Columnist