9.2 C
Washington D.C.

IQBAL Day : انفرادیتِ اقبالؒ اور فلسفہِ خودی

Published:

- Advertisement -

اقبال ؒ اور اُن کی انفرادیت نے قیامِ پاکستان کے بعد ادب کو ایک نئی شکل دی جس میں نہ تو مریضانہ ماضی پرستی تھی اور نہ ہی قدیم شعرا کی طرح محبوب نگاری کا رحجان پایا جاتا تھا اقبال ؒ نے پہلی بار ادب کو خودی کا وہ فلسفہ معتارف کروایا، جس کا انکار غیر ترقی پسند ناقدین کے ہاں لازماً ہوتا تھا۔
اقبال ؒ کے خودی کے فلسفے سے پہلے ادب نویس مٸسلہِ جبر اور فلسفہِ قدر پر بات کرتے تھے۔مئسلہ جبر کی وضاحت یوں کی جاتی تھی کہ اللہ قادرِ مطلق ہے جس کی مرضی کے بغیر دنیا میں ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ یہاں وہی کچھ وقوع پذیر ہوتا ہے، جو اُس کی مرضی اور منشا کے مطابق ہوتا ہے ۔انسان اپنی جگہ پر مجبور ہے اور اُس کی مرضی اور اُسکے ارادے میں اُسکا کوئی دخل نہیں ہوتا،اس سوچ کا حوالہ قرآن سے یوں لیا جاتا تھا۔

١ – “سواۓ اللہ کے کسی کے پاس اختیارنہیں”
٢ – ”اللہ جسے چاہے ہدایت فرمادے ،اُسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہی کے اندھیروں میں دھکیل دے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔“
٣ – ”بے شک اللہ ہی ہر چیز پر قادر ہے۔“

بعدازاں مئسلہِ جبر سے ناخوش ایک گروہ جو قدر کا فلسفہ یا عقیدہ رکھتا تھا اُس نے سر اُٹھانا شروع کردیا اور اپنا عقیدہ یوں پیش کیا کہ انسان اپنے ارادے اور اعمال میں بالکل آزاد اور خود مختار ہے۔
نیکی اور برائی کے راستوں کی اس کے لیے نشاندہی کر دی گئی ہے اور اِسے مکمل طور پر آزاد چھوڑدیا گیا ہے۔یہ جو راستہ چاہے وہ اختیار کرسکتا ہے۔اس گروہ کی سب سے پہلی دلیل یہ تھی کہ” انسان کو اپنے اعمال کے لیے جواب دہ قرار دیا گیا ہے۔“
اُن کے پاس بھی قرآنی آیات کا حوالہ یوں تھا۔
١ -”جو لوگ ہمارے معاملے میں جدوجہد اور کوشش سے کام لیتےہیں ہم اُن پر اپنےراستے عیاں کردیتے ہیں۔“
٢ -” یقیناً اللہ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں۔“
٣ -” بلکہ اللہ نے اُن پر اُن کے انکار کے سبب مہریں لگادیں۔“

اقبال ؒ کے ہاں فلسفے کی روح خودی پہ ہے جو کہ مئسلہِ ِجبر و قدر دونوں پر مشتمل ہے۔مثال کے طور پر اقبال ؒ نے دونوں چیزوں کو ایک ہی شعر میں بڑی خوبصورتی سے یوں پرویا ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

(اقبال ؒ )

اقبال ؒپورے یقین سے کہتے ہیں کہ انسانی تجربہ سلسلہِ اعمال کی کڑیوں میں سے ہے ،ہر عمل ایک دوسرے سے باہم مربوط ہے اور ایک کے بعد دوسرا عمل مجبوراً ہوتا چلا جاتا ہے جو کہ ایک باہمی وحدت مقصد میں منسلک ہوتا ہے۔ علامہ کا کہنا ہے کہ انسانی خودی کا اور تقدیر کا آپس میں گہرا تعلق ہے اگرانسان نفس کی تربیت میں ان اصولوں کو مدنظر رکھے تواُسکے اندر اندرونی صلاحیتیں اُبھرتی ہیں جس سے وہ اپنی تقدیر کا مالک بن جاتا ہے۔

تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں کہ یہ چار سو بدل جاۓ
ناچیز جہاں مہ و پروین ترے آگے
وہ عالمِ مجبور ہے تو عالمِ آزاد

(اقبال ؒ )

اقبال ؒ کے مطابق خودی کے دو پہلو ہیں۔

١ -نفسِ فعال( Effective Self)
٢ -نفسِ بصیر(Appreciative Selp)

نفسِ فعال کی تشریح ہمیشہ زمان و مکان کے پیمانوں سے ہوتی ہے جبکہ نفسِ بصیر دورانِ خالص سے رابطہ رکھتا ہے اور حیاتِ الٰہیہ سے براہ راست فیض یاب ہوتا ہے۔
اقبال ؒ کے ہاں خودی کی حقیقت اور صداقت کو ثابت کرنے کے بعد اُسکی تین خصوصیات ملتی ہیں جوکہ درج ذیل ہیں۔
١ -وحدت:
وحدت خودی کی پہلی اکائی ہے جس کے مطابق خودی کا اظہار کلیاتِ نفس سے ہوتا ہے۔
٢ -خلوت:
خلوت کے مطابق ہر خودی کی اپنی الگ حثیت ہے۔کفیاتِ نفس کاہی بےمثل ربط باہمی ہے جس کا اظہار ہم لفظ میں سے ”حرکت “کرتے ہیں۔
٣ -ہدایت کاری:
اقبال ؒ لکھتے ہیں ۔۔۔۔”میری شخصیت کا یہ مطلب نہیں کہ آپ مجھے شے سمجھیں میں شے نہیں عمل ہوں۔ میرے محسوسات کیا ہیں۔اعمال و افعال کا وہ سلسلہ جن میں ہر عمل دوسرے پر ملالت کرتا ہے اورجو ایک دوسرے سے وابستہ ہیں تو اس لیے ان میں کوٸی رہنما مقصد کارفرما ہے۔میری ساری حقیقت میرےاس امر آفرین روئیے میں پوشیدہ ہے۔“

یوں تو مختلف نقادوں نے اقبال ؒ کی شاعری کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے جو مرحلہ وار ذہنی تغیر سے وجود میں آتے ہیں مگر اقبال ؒ کی فکریہ شاعری دو شخصیات کے ادوار یا فکر میں تقسیم ہوجاتی ہے۔
علامہ جرمنی کے مشہور شاعر اور فلاسفر گوئٹے سے بے حد متاثر ہوۓ اور اُس کی کتاب ”مغربی دیوان “کے جواب میں ”پیامِ مشرق “ لکھ ڈالی، ایک طرف علامہ گوئٹے اور اُسکے ایرانی ثقافت کے عشق سے متاثر تھے تو دوسری طرف علامہ نے مولانا رومیؒ کو اپنا اُستاد مان رکھا تھا یہی وجہ ہے کہ اقبال ؒ کی شاعری رومیؒ کے فلسفے پر دوڑتی ہوٸی معلوم ہوتی ہے۔علامہ کے بیشتر اشعار میں رومیؒ کا ذکر بھی ملتا ہے۔

پیر رومیؒ مرشد روشن ضمیر
کاروانِ عشق و مستی را امیر

(اقبال ؒ )

شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ اور مولانا کے ہاں بہت سے نظریات میں مماثلت پاٸی جاتی ہے۔ دونوں اپنے علومِ عصر سے واقفیت رکھتے تھے، دونوں کا نظریہ خودی ایک ہی تھا،دونوں ارتقاۓ حیات اور عظمتِ آدمیت پر یقین رکھتے تھے ، دونوں کے ہاں عشق کو عقل پر فوقیت ہے۔

علامہ نے بانگِ درا میں عقل اور دل پر خوبصورت نظم مکالمے کی شکل میں لکھ کر عشق اور عقل پر خوبصورت وضاحت بھی کی ہے ، اگرچہ یہ نظم ابتدائی دور کی ہے لیکن علامہ کے عقل و عشق کے نظریے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔

پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو خام ہے ابھی

(اقبال ؒ)

علامہ کی شاعری اور شخصیت کے آخری دور کی خوبصورتی عشقِ محمد ﷺ سے روشنائی پاتی ہے اور کوٸی شک نہیں ہے کہ علامہ نے اپنی شاعری میں قرانی آیات کا استعمال کیا اور اُنھیں حق کا حوالہ بنایا ہے۔

مولانا مودودی لکھتے ہیں۔

”وہ(اقبال ؒ ) جو کچھ سوچتا تھا قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا ،جو کچھ دیکھتا تھا قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔حقیقت اور قرآن اُسکے نزدیک شے واحد تھے۔“

صنم کدہ ہے جہاں اور مردِ حق ہے خلیل
یہ نکتہ وہ ہے جو پوشیدہ لا الہ میں ہے

(اقبال ؒ)

اقبال ؒ کا تصورِ مردِ کامل ، تصورِ عشقِ رسولﷺ سے یقینی ہے اقبال ؒ اپنے پڑھنے والوں کو بارہا نصیحت فرماتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ ایک بحرِ ذخار کے مانند ہیں جس کی موجیں آسمان کو چھوتی ہیں، تُم بھی اِسی سمندر سے سیرابی حاصل کرو تاکہ تمہیں حیاتِ نو نصیب ہو اور تمہاری وہ بھولی بسری کیفیات جنہیں مادی دنیا نے تم سے چھین لیا ہے ازسرِ نو تم کو میسر آئیں۔

می ندانی عشق و مستی از کجاست
ایں شعاع آفتاب مصطفیٰ ست
(اقبال ؒ)

گو کہ اقبال ؒ کی ہمہ گیر شخصیت اور فکر کو ایک صحفے پر نہیں اُتارا جاسکتا مگر آج اقبال ؒ کی پیدائش کا دن ہے جس کی تاریخ پر کچھ نقادین کا اتفاق نہیں بھی ہے ، مگر سرکاری طور پر شاعرِ مشرق کی پیدائش کا یہ دن 9 نومبر 1877 کے خیال کے اتفاق سے ہی منایا جاتا ہے۔

اقبال ؒ کی نظر میں ہر نسل کے نوجوان بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور اُنھوں نے نوجوانوں کے لیے اپنا قلم سب سب سے زیادہ استعمال کیا ہے۔
اقبال ؒ نے ہمیشہ اللہ کے احکامات کو اپنے اشعار میں نوجوان کے لیے نصحیت بنا کر پیش کیا۔

مثال کے طور پر قرآن کہتا ہے۔

”وسخر لکم مافی السموات ومافی الارض جمیعا“

(سورة الجاثیہ)

ترجمہ: جو کچھ زمین اور آسمانوں کے اندر ہے ،اور جو کچھ کائنات کی پستیوں اور بلندیوں میں ہے اس (اللہ) نے ان سب کو تمہارے لیے تابع فرماں کررکھا ہے۔

اقبال ؒ لکھتے ہیں۔

نہ تو زمین کے لیے ہے نہ تو آسمان کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

اُمِ عمارہ

 

- Advertisement -

Related articles

Recent articles