1.7 C
Washington D.C.

“بائیو ٹیرارزم، عالمی محاظ اور انسانی جنگ”

Related articles

spot_img

Recent articles

spot_img

Published:

پچھلی کئی دہائیوں سے دُنیا کے ہر ملک میں جو لفظ کثرت سے بولا اور سُنا گیا ہے وہ لفظ دہشت گردی ہے ہتھیاروں سے شروع ہونے والی  دہشت ،لفظ اٹیم پر ختم ہو تی معلوم ہوتی تھی۔

تصویر کا جو رُخ ہمیں دکھایا گیا ہے اُس میں آج کے معتبر  انسان کو انسانیت کی بقا کی فکر ہے مگر در حقیقت انسانیت کے بلند و بالا مینار ریت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔انسان روزِ اول سے حکمرانی چاہتا ہے۔خدابننے کی کشش اس قدر زیادہ ہے کہ وہ انسان ہو کر بھی انسان بننا قبول نہیں کرتا۔

انسان نے ہتھیاروں سے حکمرانی کی پھر مقابلہ سخت ہوا تو ایٹم نے اپنے کرامات دکھانے شروع کر دیے۔ یورپی تاریخ کبھی بھی اپنے ماتھے سےہٹلر کا نام نہیں مٹا سکتی،جاپان کبھی بھی ہیروشیما  اور ناگا ساکی کی زمین سے ایٹمی تباکاریوں کے اثرات خارج نہیں کر سکتا اور منگولیوں کی آدھی دُنیا ابھی بھی فتح ہونے والی رہتی ہے۔

انسان کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ  حکمرانی کا ہے اور یہ ہی تصویر کا اصل اور دوسرا رُخ ہے۔

امریکہ پچھلے کئی   برسوں سے خود کو ایک زبردست معاشی ،اور جوہری قوت تسلیم کیے بیٹھا تھا۔شاید خدائی کا نشہ دُنیا کے ہر نشے سے تیز ہوتا ہے۔امریکہ نے دُنیا کو ایک عرصے تک انسانیت کی اوٹ میں اپنے اشاروں پر نچایا ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ امریکہ کا عالمی  سمندری طاقت پر کنٹرول تھا۔باوجود چین کے جنوبی اشیا ،جنوب مشرقی اشیا ،افریقی ممالک اور لاطینی امریکہ میں بڑھتے ہوۓ معاشی و اقتصادی اثر و رسوخ کے امریکہ کو کسی حد تک اپنی طاقت کا یقین اور بھرم تھا۔

یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سی پیک اور ایسے دوسرے منصبوں کے تحت چین نے امریکہ کو ایک کھلا چیلنج دیا ہے اگر یہ منصوبے مکمل ہو جاتے ہیں تو چین دُنیا کے سمندری کنٹرول پر امریکہ کو زبردست ٹکڑ دینے والا ہے۔جس کا مقابلہ امریکہ نے اب تک کئٸ سطحوں سے کیا ہے۔لیکن بقول بل گیٹس کے اب دُنیا کسی اور محاظ سے لڑنے کے در پہ ہے  جو انتہاٸی خطر ناک ہو سکتا ہے اور کسی حد تک ہو بھی چکا ہے۔

یہ محاظ باٸیو ٹرارزم ہے،ماضی میں اِسے نباتاتی عوامل کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب اس کا رُخ انسانوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے جو کہ انتہاٸی خطرناک ہے۔
ہو سکتا ہے  کروناواٸرس اسی کی ایک کڑی ہو کیونکہ اسکا
ڈاٸریکٹ اثر چین پر ڈالا گیا ہے،چین کی معاشی و اقتصادی  پاور کو زبردست دھچکا پہنچایا گیا اور اگر غور کیا جاۓ تو
اِس چراثمی جنگ کے آغاز نے دُنیا کی ہر اُس معاشی حثیت پر زبردست ضرب لگائی ہے جس سے طاقت کے زور پرامریکہ تیل کی جنگ ہار چکا ہے۔اس کی مثال آپ ایران ،عراق ،عرب امارات  اور حال ہی میں سعودی عرب اور روس کے مابین کراٶڈ تیل میں لگاۓ گۓ پوٹینشل کی جنگ کے آغاز سے لے سکتے ہیں۔

اِس سب میں ہم جیسے ممالک کا کیا قصور ہے؟

دیکھیے  اِس آگ کا دھواں تو ہم سب کو بے سبب برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ یہ خداٸی کی جنگ ہےاور خداٸی جنگوں میں عام انسان مارے جاتے ہیں۔مجھے تشویش یہ ہے کہ اسکا رد عمل کیا ہوگا؟؟

اگر یہ باٸیو ٹیرارزم کی جنگ باقاعدہ شروع ہو جاتی ہے تو انسان اپنی بقا کسی دوسرے محاظ پر نہیں رکھ سکے گا۔امریکہ کے خلاف پہلے ہی کٸ سپر پاورز ایک دوسرے کے قریب ہو رہی ہیں،ہوسکتا ہے اگلے کٸ برسوں میں امریکہ خداٸی کا دعویٰ چھوڑ دے یہ بھی ہوسکتا دُنیا ایک نٸ سمت میں نکل جاۓ جہاں ہتھیاروں کی بجاۓ چراثیموں سے جنگیں لڑی جانے لگیں۔

موجودہ حالات میں دُنیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج دنیا کا تیزی سے بدلنا ہی تو ہے۔۔۔
اُمِ عمارہ

Umm E Ammara
Umm E Ammara
Writer and Columnist